سکوتِ شب میں وہ غم کو جگا گیا کوئی
کہ زخم زخم نہیں ہے رلا گیا کوئی
ابھی جنون سلامت ہے میری جان غزل
کرن کرن ہے تصور بنا گیا کوئی
عجب مجاز و حقیقت ہے خطۂ دنیا
جہاں پہ ہنس کر میلہ دیکھا گیا کوئی
وصال یار کے لمحے ہیں عارضی لیکن
مشام جاں میں مگر وہ لگا گیا کوئی
ابھی ہے دشت میں زندہ فراق لیلائی
اگرچہ ختم فسانہ سنا گیا کوئی
ان آہٹوں پہ مری وہم کا گماں کیسا
میں کہہ چکی ہوں مری جان آ گیا کوئی
غزال آنکھیں ہیں ایسی کہ کیا کہوں وشمہ
گلاب چہرے پہ وہ مسکرا گیا کوئی