فلک سے کوئی تارا تھا کہ میں ہی بھولتی ہوں؟
وہ بھی اتنا ہی پیارا تھا کہ میں ہی بھولتی ہوں؟
جسے ساگر سمجھ کر میں گلہ کرتی رہی تھی
وہ کوئی خشک صحرا تھا کہ میں ہی بھولتی ہوں؟
بڑی مدت لگی اس کو مٹانے میں مری جاں !
جفا کا رنگ گہرا تھا کہ میں ہی بھولتی ہوں؟
وفاؤں کو کبھی جو ناز رہتا تھا کسی پر
انھیں میرا سہارا تھا کہ میں ہی بھولتی ہوں؟
مجھے دریا کی گہرائی سے اندیشہ نہیں تھا
جہاں ڈوبی کنارہ تھا کہ میں ہی بھولتی ہوں؟