کہاں سنو گے کہاں تک سناؤں درد دلِ بے قرار کا
آکےسن لے آکے دیکھ لے ذرا نقش مٹ چکے ہیں رخسار کا
جدائی میں آنسو آنکھوں میں آئیں دن وہ سہانے یاد آئیں
عیادت کو لوگ روز آئیں مگر حال تک نہ پوچھا بیمار کا
اخلاص کو ڈھونڈ نہ پائیں دشمنے کچھ اور بھڑ کائیں
بن بادل اولے برسائیں یہ حالات ہیں میرے کہسار کا
سوچوں میں دراڑیں پڑ جائیں بد گمانی کچھ اور بڑھ جائیں
پھول سے خوشبوں چھین نہ جائیں فکر ہے مجھ کو گلزار کا
کیا کریں شکوہ غیر کا دادؔ اپنے بھی اپنے کب تھے
فرقتوں میں جینا اپنے غم کو پینا دل توڑ دیا اشکبار کا