کہاں غم کے آنسو کہاں گَدا ہیں آج بھی
جو دیکھے تھے سپنے وہ صدا ہیں آج بھی
جو دل لگی سے بڑہ کر جوش بن گئے
میرے لیئے وہ ہی خدا ہیں آج بھی
سوچ نے کیسے کیسے راستے منتخب کرلئے
جس انتخاب سے راہیں جدا ہیں آج بھی
جس پلُو پر میں نے نفیس پھول رکھے تھے
وہ کسی اوچی سَر کی ردا ہیں آج بھی
اپنی جوش فصاحت کو واضع کیا کروں
کہ ان کی خفائی پہ فدا ہیں آج بھی
بنانے والے نے مرضی کا مقدر لکھ دیا
کہ ہم زندگی سے ہی بِدا ہیں آج بھی