کہتا رہا جو ریگ میں گلزار کیوں نہیں
اڑنے کو میرے ساتھ بھی تیار کیوں نہیں
قاتل کو دیکھ کر مری آنکھیں ہیں مضطرب
ہاتھوں میں اس کے خنجر و تلوار کیوں نہیں
جس دائرے میں دائرہ بنتا گیا یہاں
اس دائرے میں وقت کی پرکار کیوں نہیں
بکھرے ہوئے ہیں چار سو دورِ حیات میں
لوگوں کو ایک دوسرے سے پیار کیوں نہیں
خوشبو کو تیری چوم کے ہونٹوں پہ رکھ لیا
پھیلی تمہارے عشق کی مہکار کیوں نہیں
لوحِ جبیں پہ لکھ دیئے قصے وفاؤں کے
ہاتھوں کی تختیوں پہ مگر پیار کیوں نہیں
وشمہ جو اپنے پیار کو دفنا دیا تو پھر
یہ زیست میری جینے سے بیزار کیوں نہیں