کہتی ہے کچھ تو اُس کی حیا غور سے سنو
‘طوفاں کی آرہی ہے صدا غور سے سنو‘
آنکھوں سے، ابروئوں سے، تبسم سے، زلف سے
ہوگا بیاں نئے سے نیا غور سے سنو
لازم ہیں کچھ تو ایسی محبت میں زخم بھی
ڈھارس بندھا رہی ہے وفا غور سے سنو
صحرا کے طول و عرض پہ پھیلا ہے اب جنوں
تم نے عبث ہے مجھ سے کہا غور سے سنو
ممکن ہے آرزو نہ رہے گی مگر صنم
کیا، کیا نہ ہوگا حشر بپا غور سے سنو
آہٹ بتا رہی ہے کہیں وہ قریب ہے
ممکن ہے دل تو رک کے ذزا غور سے سنو
اچھا نہیں ذکرِ محبت اِدھر اُدھر
دل میں رکھو یہ راز ذرا غور سے سنو
فرقت میں اک دعائے تجلی جو مانگ لی
کیا، کیا نہ طورِ دل پہ ہوا غور سے سنو
پردے پڑے ہیں عقل پہ احسن کرو بھی ختم
ایسے کبھی سخن بھی ہوا غور سے سنو
(کچھ فل البدیہہ طرحی اشعار احباب کی نذر)