کہنے کو فقط ایک بات باقی ہے
خوش ہوں میری جاں کہ رات باقی ہے
لذت دیدار سے مدہوش ہوئے رہتے ہیں
ہوش آئے تو سوچیں کہ حیات باقی ہے
اک ہی شعر پہ دو جام نین مجھے دان کیے
ذرا صبر جاناں! ابھی کلیات باقی ہے
ترے میخانے میں سنی گئی میری عرض تشنہ لبی
کب اس دور میں ورنہ وہ پہلے سی بات باقی ہے
جل اٹھا تیرے نام پہ من میں اک دیا سا
تیرا لمس جو لایا طوفان جزبات باقی ہے
میں تو تم ہوں میری جاں تم میں ہی تو ہو
تیری ذات سے جڑی ہاں میری ذات باقی ہے