کہہ دو یہ ان کی زلفوں سے اب مجھ کو کوئی الزام نہ دے
جو شام ملی تھی ملنے کو اس جیسی کوئی اور شام نہ دے
تُو مجھ کو تنہا رہنے دے جو کچھ کہنا ہے کہنے دے
خاموش تُو مجھ کو رہنے کا اب اور زیادہ کام نہ دے
معصوم سی اپنی باتوں سے ان سنگ گزاری راتوں سے
کہہ دینا اپنی یادوں کا اب اور کوئی انعام نہ دے
لے جائے جو میخانے میں انھیرے سے تہ خانے میں
کیا کرنا ایسے ساقی کا جو دید تو دے پر جام نہ دے
سر کاٹ کے اس کا جلا ڈالو پھر خاک میں اس کو ملا ڈالو
ہر ایسے ویسے ملّا کا جو درد تو دے اسلام نہ دے
تُو جب بھی ملنے آئے گا دیکھ اس جانب مسکائے گا
ہر بزم سجی دل کی ہو گی گو عامر کو پیغام نہ دے