کہہ دینا اسے ایسے ہی بیکار نہ آئے
قسمت کا مری بن کے خریدار نہ آئے
اس بار ملاقات محبت تو نہ ہوگی
اس بار مرا حاشیہ بردار نہ آئے
دنیا میں تو مرتے تھے مرے حسن پہ لیکن
اب حشر میں کیوں میرے طلبگار نہ آئے
سب لوگ ہوں سرگشتہ مرے سامنے اک دن
پیچے سے جو دشمن کا کوئی وار نہ ائے
لگتا ہے یہاں پھیلا ہواؤں کا جادو
دوران سفر راہ میں اشجار نہ آئے
کچھ روز میں ہوجائے گا بند آنکھ کا چشمہ
پینے مری آنکھوں سے جو میخوار نہ آئے
ویسے تو خیالوں میں ترا راج ہے وشمہ
غزلوں میں ترے نام کے اشعار نہ آئے