کہہ کر بھی نہ آؤ کہ انتظار بڑہتا رہے

Poet: Santosh Gomani By: Santosh Gomani, Mithi

کہہ کر بھی نہ آؤ کہ انتظار بڑھتا رہے
پاس سے گذر جاؤ کہ درد سلگتا رہے

میں میری گردش میں تنہا لگتا ہوں
کبھی تیری ضرب سے ملاؤ کہ زخم پھولتا رہے

دکھ یہ تو نہیں کہ پھر آتشی ٹھہر گئی
اپنے قیاس کو جگاؤ کہ قرض چڑہتا رہے

اُس حالت کے بعد اب کوئی حالت نہیں رہی
میرے حال کو تو بہلاؤ کہ دل بہلتا رہے

خودپسندی بھی کہیں خطا کر بیٹھتی ہے
اس بھرکم کو سمجھاؤ کہ مزاج ملتا رہے

یہ منظر بھی تو جیسے قہر آلود ہوگئے
اپنے آپ کو سجاؤ کہ اندھیرا ڈھلتا رہے

اگر حُسن وفا ہے تو مجھے نہ کہو سنتوشؔ
دنیا کو بھی دکھلاؤ کہ الزام ٹلتا رہے

 

Rate it:
Views: 409
01 Jan, 2011