کہیں ایسا نہ ہو میں مر جاؤں
کچھ موت سے پہلے ہی کر جاؤں
اِک خواہش ہے دل میں برسوں کی
کہ تجھے حال سُنا کے رونا ہے
کہ تجھ گلے لگا کے رونا ہے
ابھی وقت ہے ترے اور میرے پاس
کچھ راتیں ہیں اور کچھ سویرے پاس
پھر روشن تُم چاہے کرنا گلیاں سب
مجھے ہر دیپ بجھا کے رونا ہے
کہ تجھ گلے لگا کے رونا ہے
کیا بھروسہ سانس کی صنم گاڑی کا
کیا بھروسہ ہے اِس زندگی ہماری کا
بڑی عجب سی خواہش دل میں جاگی
کہ ہرے زخم دُکھا کے رونا ہے
کہ تجھ گلے لگا کے رونا ہے
مجھے گھیر لیا ہیں میرے ملالوں نے
کچھ بے جواب سے نہال سوالوں نے
کچھ نقطے جو نہ سمجھا جیتے جی
تجھے آج وہی سمجھا کے رونا ہے
کہ تجھ گلے لگا کے رونا ہے