کہیں تو چین ملے وہ رفاہ تلاش کرتے ہیں
اِس خَلِش کے لئے کوئی شفا تلاش کرتے ہیں
تمام طلسم کی تو کون تلافی کرے گا
بھرے جہاں میں ابکہ وفا تلاش کرتے ہیں
اُجاڑ ویرانیوں کی تو طلب ہے اپنی!
چلو کسی چلمن کی رضا تلاش کرتے ہیں
اپنی ہی خلوتوں میں وہ تنہا سوتا ہے اکثر
یاد نے پھر سوچا کوئی سزا تلاش کرتے ہیں
مفلس یا متفکر کی کئی ندائیں رہتی ہونگی
چلو ان صحراؤں میں آج صدا تلاش کرتے ہیں
میری آشنائی کو کسی نے نہیں پکارا سنتوشؔ کہ
اس حشر لئے بھی کوئی جزا تلاش کرتے ہیں