کہیں حال کیا ہم نشینوں کے صاحب
کہ ہیں سانپ سب آستینوں کے صاحب
ترے وصل میں جیسے صدیاں بھی لمحہ
ترے ہجر میں دن مہینوں کے صاحب
نظر آسماں پہ بھی ہے ان کی یارو
بنے ہیں جو مالک زمینوں کے صاحب
مرے عشق کی شعلہ گرمی سے عاصم
دھڑکتے ہیں دل آبگینوں سے صاحب