کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
Poet: Afzal Safi افضل صفی By: SHAHZAR, MuzaffarGarhکہیں ملے تو اسے یہ کہنا
کہ تنہا ساون بِتا چکا ہوں
میں سارے ارماں جلا چکا ہوں
جو شعلے بھڑکے تھے خواہشوں کے
وہ آنسوؤں سے بجھا چکا ہوں
کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
بغیر اس کے اداس ہوں میں
بدلتی رت کا قیاس ہوں میں
بجھا دے اپنی محبتوں سے
سلگتی صدیوں کی پیاس ہوں میں
کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
وہ جذبے میرے کچل گیا ہے
جفا کے سانچے میں ڈھل گیا ہے
نہ بدلے موسم بھی اتنا جلدی
وہ جتنا جلدی بدل گیا ہے
کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
میں چاک دامن کو سی رہا ہوں
بہت ہی مشکل سے جی رہا ہوں
دیا جو نفرت کا زہر اس نے
سمجھ کے امرت وہ پی رہا ہوں
کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
فصیلِ نفرت گرا رہا ہوں
گئے دنوں کو بلا رہا ہوں
وہ اپنے وعدوں سے پھر گیا ہے
میں اپنے وعدے نبھا رہا ہوں
کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
یہ کیسی الجھن میں مر رہا ہوں
میں اپنے سائے سے ڈر رہا ہوں
جو ہو سکے تو سمیٹ لے وہ
میں تنکا تنکا بکھر رہا ہوں
کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
نہ دل میں کوئی ملال رکھے
ہمیشہ اپنا خیال رکھے
وہ سارے غم اپنے مجھ کو دے دے
تمام خوشیاں سنبھال رکھے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے







