فرقتوں کی بات تو ہو
اس سے ملاقات تو ہو
وہ آ کے پھر توڑ دے
دل مثل سومنات تو ہو
رات کی رانی مہکتی رہے
یادوں کی بارات تو ہو
رنگوں میں وہی رنگ چاہوں
میری گزر اوقات تو ہو
میرے افق پہ وہ تارا چمکے
حسین یہ کائنات تو ہو
دن کا اجالا کب پھیلے گا
ختم اندھیری رات تو ہو
میں کیسے کنارہ کر لوں
یاد سے نجات تو ہو
سر تسلیم خم کر لیں گے
وہ مائل بہ آفات تو ہو
ہم بکھر جائیں گے ناصر
کہیں کوئ بات تو ہو