کیا بچاتے کہ کچھ بچا ہی نہیں
دل ہی تھا جس کا پتہ ہی نہیں
پہلے تو خُود سے کبھی بات بھی کر لیتے تھے
کہاں ہیں اب ہمیں پتہ ہی نہیں
بے خبری کا اب یہ عالم ہے
لوگ دیتے ہمیں صدا ہی نہیں
دلوں میں نفرتیں ہیں اسقدر
محبت کی کہیں جگہ ہی نہیں
دوستوں نے تحفہ زخم دیئے
دوستوں سے مجھے گلہ ہی نہیں
مانو یاد اُس کو اتنا نہ کر
وہ کوئی تیرا خُدا تو نہیں