کیا تماشا ہے کہ ہر شخص تماشائی ہے
میری شہرت بھی مرے واسطے رسوائی ہے
میرے سینے میں تجھے ملنے کی خواہش ہے مگر
ایک دنیا مجھے ملنے کی تمنائی ہے
کل جو کترا کے گزرتا تھا اسے راہوں میں
آج دیکھا تو مجھے خود پہ ہنسی آئی ہے
ہر کوئی جانتا ہے میں نے تجھے پیار کیا
میری اس شہر کے لوگوں سے شناسائی ہے
کیا کروں اس کے بنا جینا نہیں ہے میں نے
حضرتِ ناصح عبث پندِ شکیبائی ہے
لوگ مجبور بھی ہوتے ہیں محبت میں یہاں
وشمہ کب ایسا کہا ہے کہ وہ ہرجائی ہے