کیا خُوشی کیا غمی بھی بھول گیا
اب تو وہ من چلی بھی بھول گیا
اِس قدر خُوب تھا وہ خُوش قامت
دیکھتے شاعری بھی بھول گیا
جی لگاتے لگاتے اُس سے میں
آخرش دل لگی بھی بھول گیا
مدّتوں بے سبب اداس رہے
وجہِ افسردگی بھی بھول گیا
دیکھ کر اُس کی چشم ِپُرنم کو
آستیں کی نمی بھی بھول گیا
سرِبالیں میں دیکھتے ہی اُسے
موت کی جانکنی بھی بھول گیا
بستیوں اب مرا یقین آیا
جب میں آوارگی بھی بھول گیا
اب مری یاد کھینچ لائی ہے؟
جب تمہاری کمی بھی بھول گیا
ناز اٹھاتے میں زندگانی کے
دوستی دشمنی بھی بھول گیا
جانیے کیا سحر کیا اُس نے
اپنی شعلہ زنی بھی بھول گیا
دمِ رخصت لہو نہ رویا اور
مرتے دم تک ہنسی بھی بھول گیا
گاہے گاہے میں طنز کرتے وقت
اُس کی بیچارگی بھی بھول گیا
کوچۂ یار کا کوئی پاگل
ایسا سُدھرا گلی بھی بھول گیا