کیا مزہ، اب آئے ہو، وہ وقت پر آنے میں تھا
اب کہا کس کام کا، بر وقت فرمانے میں تھا
کُچھ نہیں حیرت مجھے اُس کے جنوں پہ چارہ گر
جن کہاں، سمجھے جو تُم، بس عشق دیوانے میں تھا
فعل میں اُس کے نہیں تھا قول سے کوئی تضاد
اس لیئے اتنا اثر بھی اُس کے سمجھانے میں تھا
میں نے بھی سمجھا مناسب، چل پڑے اب قافلہ
نیند کا اندیشہ لاحق سب کو سستانے میں تھا
میرے ہاتھوں میں نہیں تھی ایک بھی روٹی فقط
اور بھلا کیوں معترض میں اپنے گھر جانے میں تھا
آج ایسا کیا ہوا دل سے گیا ہوں میں اُتر
کل تلک تو میں ترے رنگین افسانے میں تھا
آپ کو اظہر بسایا دل میں تھا ہم نے مگر
آپ کہتے ہیں نہ جانے کب سے ویرانے میں تھا