کیا ملا پیار میں اندھا کرکے
تو نہیں آیا ہے وعدہ کرکے.
انتہا ہے تو مرے پیار کی یار
لوٹ جاتا ہوں ارادہ کرکے
مبتدا عشق نہیں ہے میرا
چل پڑا پیار میں گہرا کرکے
طنطنہ پھر بھی وہی تھا میرا
زیست کو دیکھا ہے سادہ کرکے
کرتا توقیر نہیں ہے ساجن
کیا برا تم نے تو اچھا کرکے
تھا کہاں پیار مناسب کر نا
چھوڑ اس نے دیا پسپا کرکے
رہتا ہے میرے خیالوں میں توں
کیا ملا تم کو ہے تنہا کرکے
شاعری تیرا شغف ہے شہزاد
شعر لکھتے رہو سچا کرکے