کیا ملتا ہے ہمت کے پرزور عدم سے ہار کے
ہم نے تو ہر خوشی حاصل کی ستم میں گذار کے
درصورت راستبازی ہر شخص کے پاس تو نہیں
خطا کرکے نکل جاتے ہیں یہ آدم مسکرا کے
سادگی میں یکساں رہوں، یہ عہد تو نہیں ہوا
دنیا ہم عصر نہیں رہتی اپنے ہی ماتم جتا کے
یہ حسرت تو جسم کی حدوں سے بھی بڑی
مانگو بھی صدق دلی کے حق تو الم اٹھا کے
ذیل مقدار سے چھوٹی ہیں منزلیں مگر!
تیرے پاس ہیں سب بازو اور قدم اُدھار کے
بہت عمدہ ہے زندگی کا فسانہ سنتوشؔ
لیکن کون لکھے یہ پست ہمتی قلم جھاڑ کے