کیا نظارا تھا مجسم تھی حیا، دیکھ آیا
اُس کی آنکھوں میں جو اُترا ہوں، وفا دیکھ آیا
ہوش اب کس کو ہے، دیوانہ بنا پھرتا ہوں
اک نظر ہی میں خدا جانے میں کیا دیکھ آیا
زلف پھیلا کے کہا اُس نے کہ آو جاناں
پھر برستی ہوئی چاہت کی گھٹا دیکھ آیا
بعد ملنے کے مجھے چپ سی لگی ہے یارو
کیا تھا اُس بت میں خدا جانے، جدا دیکھ آیا
بیٹھنا پڑ تو گیا بزم کی رونق میں مگر
سب تھا بیکار کہ سب اُس کے سوا دیکھ آیا
خواب میں اُس سے بچھڑنے کا تصور اُبھرا
میں تو نزدیک سے جیسے کہ قضا دیکھ آیا
ملنے والی ہے، لگا، دولت دنیا مجھ کو
اُس کو اظہر میں رقیبوں سے خفا دیکھ آیا