کیا وہ دے گا تعلق بھی عمر بھر کے مجھے
کہ جس نے چھوڑا ہے تنہا کسی سے ڈر کے مجھے
میں کیسے دل سے دعائیں بھی ان کو پیش کروں
جو قدر کرتے نہیں ان کو پیار کر کے مجھے
ہمیں تو اپنا بنا کر سدا عدو نے دیئے
ہمیشہ پھولوں کے بدلے میں خار بھر کے مجھے
مجھےبھی شہر میں آتی ہے یاد ماضی کی
قصے سناتا ہے جب بھی وہ اپنے گھر کے مجھے
کرو تلاش زمانے میں ان فقیروں کو
سنائیں باتیں ، وہ نغمے اِدھر اُدھر کے مجھے
وہ کس کے ہاتھوں میں دے کے چل دیئے وشمہ
بچھڑ کے آنکھوں کو پھر اشکبار کر کے مجھے