میں چاہتا ہوں تجھے اتنا بے قرار کروں
کہ تیری جھیل سی آنکھوں کو اشکبار کروں
توں ٹوٹی شاخ کا پتہ ہے اور اے جانء بہار
میں کس لیے تیرے آنے کا انتظار کروں
کبھی کسی سے ملوں بھی تو ہم نوا بن
کچھ اس طرح سےزمانے کو سوگوار کروں
ںابھی تلک مجھے نفرت ہے عشق سے لی
کسی سے عشق جو کرلوں تو بے شمار کروں
ہزار چہرے تخیل میں آ بسے ہیں میرے
سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ کس سے پیار کروں
تجھے میں یاد کروں یہ گمان مت رکھنا
مگر جو یاد بھی کرلوں تو بار بار کروں
میرے خلوص نے رسوا کیا مجھے تابش
میں کب تلک تیرے وعدے پہ اعتبار کروں