کیا یقیں کیا گماں کو چھوڑ گیا
دل ترے آستاں کو چھوڑ گیا
کوچہِ یار کا وہ مست خرام
آج اپنے مکاں کو چھوڑ گیا۔
جستجو ہی محال تھی جس کی
وہ کچھ ایسے نشاں کو چھوڑ گیا
جاتے جاتے بھی شخص وہ اپنی
من گھڑت داستاں کو چھوڑ گیا۔
گھونٹ بھر زہرِ لب پلاتا شخص
دمِ لب تشنگاں کو چھوڑ گیا
کل کی شب بھی نہ جانے کیا گزرا
چاند بھی آسماں کو چھوڑ گیا