کیسی رت ہے یہ میری آنکھوں میں
زیست ڈھلتی رہی ہے باتوں میں
میں نے دیکھا ہے پیاس کا منظر
پیاسے دریا کی پیاسی آنکھوں میں
میرے دشمن کی اک کہانی ہے
پڑھ لو ، پڑ ھنی ہے میری آنکھوں میں
تم بھی پیغام دو نہ خوشبو کو
لوٹ آئے وہ گھر کے پھولوں میں
وہ بھی دیتا رہا ہوا مجھ کو
میں بھی جلتی رہی چراغوں میں
مجھ کو سینے سے تم لگا لینا
جب بھی جھولوں میں تیری بانہوں میں
میری آنکھوں کی روشنی لے لو
مجھ کو بھر لو نہ تم نگاہوں میں
بے خودی میں دھمال ڈالی ہے
اب میں گرتی ہوں اپنی سانسوں میں