کیسے کیسے حباب زندہ ہیں
میرے دل میں جناب زندہ ہیں
اب بھی رہتی ہے آس سوہنی کو
اب بھی دکھ کے چناب زندہ ہیں
مر چکی ہوں جہان میں لیکن
میری آنکھوں کے خواب زندہ ہیں
دکھ تو جلتے ہیں میرے سینے میں
پھر بھی خانہ خراب زندہ ہیں
عمر گزری ہے کس کشاکش میں
آگہی کے عذاب زندہ ہیں
میرے نغموں میں ، میرے شعروں میں
رتجگوں کے سراب زندہ ہیں
یہ محبت ہے چیز کیا وشمہ
جس کے زیرِ عتاب زندہ ہیں