کیوں اپنی آہ وہ دیوارں کو سنا رہے تھے
وہ رات بھوک سے بچے جو بلبلا رہے تھے
انہیں خبر ہی کہاں تھی یہ شہرِ یزداں ہے
جو اپنی پیاس کے شکوے میں روتے جا رہے تھے
اسے نماز کا سجدہ سمجھ لیا سب نے
فقیر لوگ تو محبوب کو منا رہے تھے
غریبِ شہر کی میت پہ کون آتا بھلا
امیرِ شہر جو رسمِ حنا رچا رہے تھے
عبادتوں کی طرح دل کو چین مل رہا تھا
دیارِ یار پہ جب سر کو ہم جھکا رہے تھے
وہ ہم تھے جان جو حق گوئ میں گنوا چلے تھے
یونہی تو لوگ نہیں گن ہمارے گا رہے تھے
فضاۓ شہر معطر نہ ہوتی کیوں باقرؔ
وہ میرے شہر سے گزرے تو مسکرا رہے تھے