گئی دل فدا گلاب پر دیکھنے چلے آئے
کب سے محبتوں کے عذاب سر دیکھنے چلے آئے
عجب سے وہ دن جو رہتے تھے ہچکچائے سے
دے دینا ان کو حساب اگر دیکھنے چلے آئے
عجب سی خوشبو مہک اٹھی اجڑے گلستاں سے پھر
گیا خیال تم میں لیے بیتاب دل ادھر دیکھنے چلے آئے
دوبارا ان کو دیکھنا گناہ مانتے ہیں ہم
اسی لیے ہم بھی اک ہی جناب نظر دیکھنے چلے آئے
خواہش تھی قلزم میں بھی ان کے پاؤں میں چھالے دیکھوں
زمانے سے پہلے یہی خواب جگر دیکھنے چلے آئے