گر جانا تھا تو بتا کے جاتے
نیند سے مجھے تم جگا کے جاتے
کیے تھے تم نے ہزاروں وعدے
کوئی ایک تو تم نبا کے جاتے
دیکھ لیتا میں تجھ کو آخری بار
جلوہِ حُسن تم مجھے دکھا کے جاتے
کیوں غیروں کے دیا میری بربادی کا ذمہ
مجھے اپنے ہاتھوں سے مار مکا کے جاتے
میں نہ کرتا پاڑ کوئی حد تجھے روکنے کی
گر باہوں کے دائرے میں آ کے جاتے
دردِ ہجر سہہ لیتے مسکراتے ہوئے
لوٹ آنے کی مرہم لگا کے جاتے
پھرتا ہوں حسرتوں کا جنازہ لیئے
تم خود ہی اِنھیں دفناکے جاتے
کس شہر میں جا بسے خدا جانے
کوئی ہتا پتہ تو بتا کے جاتے
نہال کومل باہوں میں اُٹھا کے رخصت کرتا
پاگل جاتے جاتے مجھے آزما کے جااتے