گر ضد ہے میری مجھ کو منا لو نا پیار میں
دل میں کھلا دو پھول مہِ نو بہار میں
پڑ تی تھی غم کی دھوپ نہ جس کی دعاؤں سے
ملنے کی اس سے آس ہے دل بیقرار میں
آجا لپٹ کے تجھ سے میں رو لوں نا ایک بار
یہ لٹ چکی ہے زندگی اجڑے دیار میں
خوشیوں سے دور دور ہی رکھتی ہوں آرزو
کچھ بھی نہیں ہے آج مرے اختیار میں
اہلِ جنوں میں پہلی سی شورش نہیں ہے اب
پھر بھی عیاں ہیں زندگی کے اشتہار میں
اب آئینے کے روبرو چہرہ میں کیا کروں
بکھرا پڑا ہے چار سو گرد و غبار میں
اس بے سکوں حیات پہ صدیاں محیط ہیں
وشمہ میں لٹ چکی ہوں ترے انتظار میں