گر محبت دلیل ہو جائے
آسماں خود وکیل ہو جائے
پاس میری اپیل ہو جائے
رات غم کی قلیل ہو جائے
حق کا پرچم اُٹھا کے چلنا ہے
راہ بے شک طویل ہو جائے
راہ تک لے غریبی جس گھر کی
بندہ وہ ہی ذلیل ہو جائے
ختم محتاجی کا ہو یارب دور
کُل جہاں خود کفیل ہو جائے
کام مخلوقِ ربّ کے جو آئے
ایسی عادت سبیل ہو جائے
اُس کو ربّ ہی شفا دے اے بشریٰ
روح جس کی علیل ہو جائے