گراں رہتا ہے ہر لمحہ، وبالِ جان رہتا ہے
محبت دُور سے کرنا، کہاں آسان رہتا ہے
ترستی رہتی ہیں آنکھیں، سسکتی رہتی ہیں سانسیں
برستے فراق کے نشتر، اور ہجران رہتا ہے
نظر سے دُور ہو ہمدم، خواب میں بھی آئے کم
دھڑکنیں تھمنے لگتی ہیں، جب یہ بُحران رہتا ہے
التفا وہ نہیں کرتا، جسے بھی مل جائے موقع
وفاوں پہ تب میری یہ امتحان رہتا ہے
سکونِ قلب ملتا ہے،روح تسکین پاتی ہے
بارگاہِ الہٰی میں جب تک انسان رہتا ہے