گردش چہرے پہ غبُار یہ کیسا
خواب اُمنگوں پہ خمُار یہ کیسا
تسکین کو کس نے کنکر مارا
ٹھہری سوچوں میں بگاڑ یہ کیسا
شاید یونہی کسی تجلی سے گذرے
اپنی آنکھوں میں اُبھار یہ کیسا
خیال امیدیں خلا میں بھٹکیں
ہوا میں شدت کا شمار یہ کیسا
قلیل ارمان پہ راکھ بن گئے
جیون کا جل نکلا سگار یہ کیسا
جھپک کر کس نے پہلو چرالیئے
دامن کا ہوگیا سنتوشؔ شکار یہ کیسا