گرمی میں چلا آتا، تُو کیوں آیا دسمبر
پگھلے تو بنے گا نہ کوئی رستہ، دسمبر
محفل میں اُٹھا شور کہ برپا ہوا ہجراں
نکلا تھا مرے منہ سے بر جستہ دسمبر
تھی عشق کی گرمی جو پریشان ہوا تھا
کھسیانی ہنسی ہنستا وہ یخ بستہ دسمبر
یہ کھیل ہی سارا ہے طلب اور رسد کا
مہنگی ہوئی گرمی تو ہے اب سستا دسمبر
اُلفت کے پرستار کہیں عید مناتے
پر اُن کے لئے تُو ہے بڑا خطرہ دسمبر
کہتا ہوں یقیں سے کوئی گُل رہ بھی نہ پاتا
غلطی سے کہیں ہوتا یہ گُلدستہ دسمبر
چل خیر سے اظہر انہیں برداشت کریں گے
ہجراں کی یہ شب، اُس سے یہ پیوستہ دسمبر