گرچہِ بچھڑی بھی تو مِلا کرے گی
یعنی اُمید کو سزا کرے گی
میں ہوں اپنے قفس کا قیدی اور
وہ جب بھی آئے گی تو رِہا کرے گی
اپنی شدّت برائے نام ہی تھی
کب گماں تھا وہ انتہا کرے گی
وقتِ عہدِ وفا نہیں سوچا
خود فریبی بھی اِقتضا کرے گی
مجھ سے ملنے کو روز ہی سرِ شام
سوئی آنکھوں میں جا رَہا کرے گی
پھر وہی خامشی سے تکراریں
جب کوئی بات نا بنا کرے گی
جیسے حالات بھی رہیں درپیش
کسی صُورت نہیں نبھا کرے گی
یہ بھی پوچھا کہ نا ملے ہم تم
کس پہ الزام وہ دھرا کرے گی
جی لگاتے نہیں خیال آیا
کوچے کوچے خبر اُڑا کرے گی
گو کہ تدبیر سے وہ خائف تھی
یہ کیا کم تھا بہت دُعا کرے گی
بیچ ہم نے جو ذات ڈالی تھی
کب خبر تھی وہی جدا کرے گی
جب بچھڑ کر نہیں خلش دل میں
کیسے مل کر خُوشی ہُوا کرے گی
راستوں میں بکھیر کر ہم کو
منزلوں پر مغالطہ کرے گی
وہ رقیبوں کی بزمِ عشرت میں
اک تماشے سے ابتدا کرے گی
جان دونوں کہیں پہ بھاگ چلیں
ایسی خوش فہمی کر لیا کرے گی
میں سمجھتے سمجھ سکا نہ جنیدؔ
ہرزہ گوئی بجا لگا کرے گی