گریں ٹوٹ کے گنگھرو تو سبھی ردم چھپ جاتے ہیں
یوں حالاتوں تلے لوگوں کے عدم چھپ جاتے ہیں
ایک اعتماد بحال ہونے تک تو بڑے تنازے رہتے ہیں
یقیں کو ملتی ہیں یلغاریں تو بھرم چھپ جاتے ہیں
خود کو ذہن نشین کرلو بڑئے مسودے آج بھی ہیں
خودی کرتی ہے فن مرتب تو کرم چھپ جاتے ہیں
وجد اور تسکین عبادتوں میں بھی ہے لیکن
کبھی کبھی حریصوں کے ہاں دھرم چھپ جاتے ہیں
غربت پہ عداوتیں بہت کثیر گذرتی ہیں مگر
کیا کریں حقیروں کے یہاں جُرم چھپ جاتے ہیں
کس نے کہا درد ضربیں ہم نے عیاں نہیں کی
ضبط کلا سے سنتوشؔ کچھ زخم چھپ جاتے ہیں