گزری جو رات آئی سحر آہستہ سے
آیا تیرا نام لب پے مکر آہستہ سے
محسوس کر کہ کیا ہوا سینے میں
بتا دے گا تجھے کچھ جگر آہستہ سے
کیا یہ وہی ہے جو آیا تھا دیوانہ وار
وہ بولا کچھ پہچاں کر آہستہ سے
دیکھنا غور سے تمہاری ہوئی بدنامی اس پل
ڈالو ضرور پر ڈالو نظر آہستہ سے
اٹھاتا نقاب شرما گیا رسم تھی دنیا داری تھی
کہہ گیا سب وہ پر آہستہ سے
دریچوں کو دیکھو کلیاں کیے مسکرائے جاتی ہیں
بنالیں ہم بھی کسی کو ایسا ہمسفر آہستہ سے
جلدی سے بلالو شب کو صبح میں جی نہیں لگتا
کرم ہوگا اب نہ بکھیرو زلفوں کو مگر آہستہ سے
اٹھالو چاند علی تاروں کو بھر لو دامن میں
روکا نہیں اٹھانے سے اٹھاؤ مگر پر آہستہ سے