گزرے تمام لمحے دھڑکن کی یاد آئی
دیکھے جو پھر کھلونے بچپن کی یاد آئی
بلبل کبھی جو گلشن پاوں میں روندتا تھا
قیدِ قفس میں اس کو گلشن کی یاد آئی
میں تارے چن رہا تھا اپنے لیے جہاں پر
چندا کو دیکھتے ہی دلہن کی یاد آئی
میرے جو پاوں اس نے دیوانگی میں دیکھے
بوڑھے سے آدمی کو جوبن کی یاد آئی
آنکھوں سے خوں بہا اور ہم رات بھر نہ سوئے
کچھ اس ادا سے ہم کو ساجن کی یاد آئی