گزرے ہوئے وقت سے یادیں چُن کر
سجا لیتا ہوں میں اکثر راتیں اپنی
تو ہے کہیں پاس ہوتا ہے یہ احساس
کر لیتا ہوں میں تنہائی سے باتیں اپنی
وہ بے وفا نہیں ، کچھ مجبوری ہی رہی ہو گی
گھڑ لیتاہوں میں خود سے وضاحتیں اپنی
مسکرا کے جو اُس نے حالِِ دل پوچھ لیا
دہری رہ گئیں پھر سب شکائتیں اپنی
ہر چہرے میں نظر آتا ہے چھرہ اس کا
جانے کیارنگ لائیں گی یہ رفاقتیں اپنی
نہ سنور کے نکلو یوں تم شہر میں جانم
کہارہنے دو کبیرؔ ! تم یہ نصحتیں اپنی