ہونٹوں کا تبسم کیا جینے کی ادا بھی
اب زیست بنا تیر ے سزا بھی ہے قضا بھی
اٹکھیلی مرے یار کے آنچل سے کرے ہے
گستاخ ہوئ جاتی ہے اب باد صبا بھی
سولی پہ جہیز کی چڑھی اک اور دولھن آج
ہاتھوں سے نہ چھوٹا تھا ابھی رنگ حنا بھی
سکھیوں نے انھیں چھیڑا تھا کل لے کے مرا نام
اس بات پہ سنتے ہیں وہ خوش بھی ہیں خفا بھی
تصو یر نظر آتی تری اور بھی دلکش
بھر دیتا مصور جو ذرا رنگ وفا بھی
پرہیز ہے لا زم مگر اے شیخ سمجھ لو
کر جاتے ہیں محتاط قدم لغزش پا بھی
ساقی نے حسن آج تو ہونٹوں سے پلا دی
تلخی بھی تھی ترشی بھی تھی مستی بھی نشہ بھی