گلاب رُت ہو کہ اب ہو خزاؤں کا موسم
بدل نہ پاۓ گا میری وفاؤں کا موسم
صدا جو حق کی لگاتے ہیں صِرف اُن کے لیۓ
ہے میرے شہر میں اب تک سزاؤں کا موسم
تمہاری راہ میں پلکیں بچھاۓ بیٹھے ہیں
چلے بھی آؤ کہ بیتا اناؤں کا موسم
جو جا چکا ہے اُسے لوٹ کر نہیں آنا
گُذر گیا مِرے ہمدم صداؤں کا موسم
مریضِ عشق ہوں مجھ کو دوا نہیں درکار
مجھے تو چاہیۓ تیری دُعاؤں کا موسم
تمہی نہیں ہو سبھی کچھُ تو پہلے جیسا ہے
وہی ہوں میں، وہی ٹھنڈی ہواؤں کا موسم
بہار آۓ گی عذراؔ مِرے بھی آ نگن میں
گذُر ہی جاۓ گا آخر خزاؤں کا موسم