گلابی شام میں رنگوں کی کہکشاں بن کر
نظر اُٹھی میرے جذبوں کی ترجماں بن کر
وہ سحر تھا کہ کوئی ساز اس کی قربت کا
کہ نغمہ خواں ہوئی دھڑکن بھی داستان بن کر
میں اس میں روئے بہاران تلاشتی ہی رہی
جو صحن دل کو بھسم کر گیا خزاں بن کر
میں جس شجر سے بھی رنگ حیات پانے گئی
شکار برق پتاں ہو گیا دھواں بن کر
شدید چاہ ہے سائے میں اپنے بیٹھی رہوں
پر اگلے پل ملے گا عذاب جاں بن کر
یہ بندشوں کے نگر میں نحن دری کا جنوں
ہیں گفتگو میں تخیل میری زباں بن کر