گلوں میں رنگ سماں میں وہ خُمار نہیں
تُو جو نہیں تو گُلشن میں وہ بہار نہیں
صباء ہے بوجھل سی شبنم کی آنکھیں نم
مہکی خوشبو کے دل کو بھی قرار نہیں
ہر اِک کلی تھی تیرے وجود سے پُر نور
کلیوں کو بھی اب کِھلنے کا اعتبار نہیں
جب تلک تُو تھا گُلوں میں بھی کشش باقی تھی
اب تو گُلوں کا بھی کوئی پرستار نہیں
تُو جو تھا تو مہک جاتیں تھیں سانسیں اپنی
جو تُو نہیں تو میں زندوں میں اب شُمار نہیں۔