گوناں گون کی یہ دنیا اور تم ہر رنگ کے قائل
افسردہ ہماری سوچیں جیسے ہر دہلیز کی سائل
وہ آدھے کھلے دروازے آخر کس کے منتظر ہیں
جہاں سوتے بجا کنگناں اور اٹھتے بجی پایل
ادنیٰ ہیں تاسف، جس کا نہ وید نہ مرہم
ایک کل ہوئا سنگسار ایک آج ہوئا گھایل
خلوت میں کہیں اصلاح بھلا کہاں ہوتا ہے
جس کے ہر افراط میں یوں افسردگی رہی مایل
ہر گلستاں میں مجھ سے ہی رونق ہے
یہ تو کوک کوک کے کہہ رہی تھی کوئل
زندگی کو ترغیب دو بھی اس طرح سنتوش
کہ کتنی ہیں خواہشیں اور کتنے ہیں وسائل