گُلشن میں جوانی ہے ، تماشا سا لگا ہے
کیا رات کی رانی ہے، تماشا سا لگا ہے
اک عمر گزاری ہے ترے درد نگر میں
چاہت کی نشانی ہے ، تماشا سا لگا ہے
باغوں کی فضاؤں میں یہ کیوں زرد ہے موسم
جب رات سہانی ہے ، تماشا سا لگا ہے
اچھا نہیں لگتا ابھی گاؤں سے پلٹنا
موسم میں جَولانی ہے تماشا سا لگا ہے
جاتی ہوں کئی بار میں شب چاند کے اُس پار
اک یاد پرانی ہے ، تماشا سا لگا ہے
دیکھا ہے بھرے شہر میں ہر موڑ پہ وشمہ
یادوں کی کہانی ہے ، تماشا سا لگا ہے