گِرا ہوں کہی بار تجھ تک آتے آتے
Poet: NEHAL GILL By: NEHAL, Gujranwalaگِرا ہوں کہی بار تجھ تک آتے آتے
کیا کیا نہ گنواہ دیا تجھے پاتے پاتے
زخم ہی زخم تھے میرے دل پے جاناں!
خون بہہ نکلا ہم درد کو دیکھاتے دیکھاتے
شاید بھول جاتے بآسانی جدائی کے پل
اگر وہ مُڑ کے نہ دیکھتے جاتے جاتے
برسات سا بھیگ گیا سارے کا سارا تن
شب بھر تری یاد میں آنسو بہاتے بہاتے
وہ کہتے ہیں مجھ سے تُم نبا نہ سکے
ہم نے ہر خوشی بھلا دی حالاکہ نباتے نباتے
پل بھر میں اعتبار کے محل گِر جاتے ہیں
سالوں لگ جاتے ہیں جو بناتے بناتے
بے وفاؤں کی کہانی سُنا رہے تھے محفل میں
ترا نام آیا تو خاموش ہوئے سُناتے سُناتے
بچھڑنے کے بعد پوچھا کسی نے ترے بارے
اُسی سے لپٹ کے روئے ہم بتاتے بتاتے
روزانہ رات گزر جاتی تھی اِسی عمل میں
نام ترا لکھتے لکھتے اور پھر مٹاتے مٹاتے
زمانہ جاگ جاتا ہے سو کے شب بھ
میری شب گزرتی ہے خود کو سلاتے سلاتے
لگتا ہے میری عمر گزر جائے گی ساری
بس اِک محبت کا غم ہی بھلاتے بھلاتے
نہال پہیلی زندگی کی الجھتی جا رہی ہے
تھک سا گیا ہوں اِسے سلجھاتے سلجھاتے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






