گھاؤ ہرا ہوا پھر پرانی یاد کا
قصہ کیا سناؤں میں دل برباد کا
بیٹھے ہیں دیکھے وہ سائے کے انظار میں
پتھر نہیں رکھا گیا جس دیوار کی بنیاد کا
میں تو رہنا چاہتا تھا قفس میں عمر بھر تمام
پر جی بھر گیا ہائے مجھ سے خود ہی صیاد کا
جب چاند چکوری کو کچھ نہ دے سکا
پھر فائدہ کیا ہوگا تجھ سے فریاد کا
سناٹا رہا رات بھر مار گئی تنہائی
برا ہو تیرے اس شہر آباد کا
چہرا گلاب سرخ کا دیکھ لیا ہے واہ
اک اور چراغ جل اٹھا اپنی ارشد مراد کا