کبھی اِس رہ پہ آنکلے کبھی اُس رہ پہ آنکلے
کیسی تھی تکمیل اپنی کہ گھر اپنا جلا نکلے
خطا ایسی ہو کے دل اب بھی تھامے بیٹھے ہیں
کن منزلوں کا سوچا تھا کن راہوں پر جا نکلے
دور دور تک صحرا ہے اور ہیں ہم
صِلے میں ہم یہ محبت کے کیسی منزل پا نکلے
دیکھ دشتِ تنہائی میں یوں ہی بھٹکتے بھٹکتے
سرِ راہ کیسے ہمسفر تنہائی کو بنا نکلے
نادانی تم بھی تو زرا دیکھو دلِ نادان کی
امید پھولوں کی دوستی کانٹوں سے لگا نکلے
کرے محبت نہ ہرگز کسی دلنشین سے کوئی
حال ایسا ہی ہوگیا کہ دل سے یہ ہی صدا نکلے
جفا ایسی کون جانے زخم ایسا کون مانے
وہی جانے درد ساجد حصے جس کے سزا نکلے