گھر میں نہیں ہوتے کبھی باہر نہیں ہوتے
ایسا ہے کہ ہم خود میں بھی اکثر نہیں ہوتے
انسان کے دکھ درد کا رہتا ہے انہیں پاس
احساس جو رکھتے ہیں وہ پتھر نہیں ہوتے
اک خواب کے چھن جانے سے بےآس ہوئے تم
مایوس کبھی عشق کے پیکر نہیں ہوتے
کب راحت منزل انہیں آتی ہے میسر
جو جادہ دشوار کے خوگر نہیں ہوتے
کرتے ہیں ادب اپنے بزرگوں کا ہمیشہ
تہذیب کے پالے ہوئے خود سر نہیں ہوتے
پیاسوں سے یہ کہہ دو کہ وہ دھوکے میں نہ آئیں
دریاؤں کی مانند سمندر نہیں ہوتے
درپیش سفر ہے تو عظیم اس سے ڈریں کیوں
بگڑے ہوئے کب وقت کے تیور نہیں ہوتے